نیویارک میں ایک وفاقی جج نے اوپن اے آئی کی درخواست مسترد کرتے ہوئے کمپنی کو ہدایت کی ہے کہ وہ صارفین کے شناخت سے پاک 20 ملین چیٹ جی پی ٹی لاگز فراہم کرے جو اس کاپی رائٹ کیس کے لیے مرکزی ثبوت ہیں۔ یہ فیصلہ اوپن اے آئی کے خلاف نیویارک ٹائمز کے زیر التواء مقدمے کا حصہ ہے جہاں کمپنی پر الزام ہے کہ اس نے اپنی مصنوعی ذہانت کی تربیت کے لیے غیر مجاز طور پر نیوز پیپر کے مواد کا استعمال کیا۔
اوپن اے آئی ایک معروف امریکی ٹیکنالوجی کمپنی ہے جس نے چیٹ جی پی ٹی کے ذریعے مصنوعی ذہانت کے شعبے میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ چیٹ جی پی ٹی ایک زبان پر مبنی ماڈل ہے جو صارفین کے سوالات کے جوابات دیتا ہے اور مختلف موضوعات پر معلومات فراہم کرتا ہے۔ تاہم، کمپنی کی تربیت کے دوران استعمال ہونے والے ڈیٹا کی قانونی حیثیت پر سوالات اٹھتے رہے ہیں، خاص طور پر جب یہ ڈیٹا کاپی رائٹ کے تحت محفوظ ہو۔
یہ مقدمہ اس اہم قانونی بحث کو جنم دیتا ہے کہ مصنوعی ذہانت کی تربیت کے لیے استعمال ہونے والا ڈیٹا کس حد تک قانونی ہے اور صارفین کی پرائیویسی کی حفاظت کیسے کی جائے۔ جج کے فیصلے کے بعد اوپن اے آئی کو لازمی طور پر وہ تمام لاگز فراہم کرنے ہوں گے جن میں صارفین کی شناخت شامل نہیں، تاکہ عدالت مقدمے کا جائزہ لے سکے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس قسم کے مقدمات سے مصنوعی ذہانت کی صنعت پر اثر پڑ سکتا ہے، کیونکہ یہ واضح کرے گا کہ ڈیٹا اکٹھا کرنے اور استعمال کرنے کے قوانین کتنے سخت یا نرم ہونگے۔ اگلے مراحل میں عدالت سے مزید وضاحتیں متوقع ہیں جو اس کیس کے نتائج کو طے کریں گی۔
یہ خبر تفصیل سے یہاں پڑھی جا سکتی ہے: decrypt