ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے کرپٹو کرنسی کے حوالے سے اپنی پوزیشن میں تبدیلی نے امریکی حکومت کے نئے مالیاتی تکنالوجی کی جانب رجحان کو آسان بنا دیا ہے۔ اگرچہ کرپٹو کرنسیز نے گزشتہ دہائی میں دنیا بھر میں مالیاتی نظام میں انقلاب برپا کیا ہے، امریکی حکومتی اداروں میں ان کی قبولیت میں ابتدا میں مشکلات کا سامنا رہا۔ ٹرمپ کے اس موڑ نے اس راہ کو نسبتاً ہموار کر دیا، جس کے بعد امریکہ میں کرپٹو کرنسیز کی ریگولیٹری فریم ورک کی تشکیل اور ان کی سرکاری سطح پر قبولیت میں اضافہ ہوا۔
کرپٹو کرنسی، جیسے کہ بٹ کوائن اور ایتھیریم، نے روایتی مالیاتی نظام کو چیلنج کیا ہے اور عالمی سرمایہ کاری کے منظرنامے کو تبدیل کر دیا ہے۔ امریکہ، جو عالمی مالیاتی مرکز کے طور پر جانا جاتا ہے، نے ابتدا میں اس نئی ٹیکنالوجی کو سمجھنے اور قابو پانے میں احتیاط برتی، لیکن اب وہ اسے ایک اہم مالیاتی انوویشن کے طور پر دیکھ رہا ہے۔ ٹرمپ کی پالیسیوں اور بیانات نے مارکیٹ میں اعتماد کی فضا قائم کی، جس کی بدولت دیگر ممالک بھی کرپٹو کرنسی کو اپنانے میں دلچسپی لینے لگے ہیں۔
اگرچہ اس رجحان نے کرپٹو مارکیٹ کو فروغ دیا ہے، لیکن اس کے ساتھ کچھ خطرات بھی وابستہ ہیں، جیسے کہ ریگولیٹری غیر یقینی صورتحال، مالیاتی فراڈ، اور مارکیٹ کی غیر مستحکم صورتحال۔ تاہم، ٹرمپ کی تبدیلی نے امریکی حکومتی اداروں کو اس شعبے میں مربوط پالیسیاں بنانے کا موقع دیا ہے جو مستقبل میں کرپٹو کرنسی کی دنیا میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔
یہ پیش رفت اس بات کی علامت ہے کہ عالمی مالیاتی نظام میں کرپٹو کرنسی کی اہمیت بڑھ رہی ہے اور امریکہ اس تبدیلی میں مرکزی کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔
یہ خبر تفصیل سے یہاں پڑھی جا سکتی ہے: coindesk