دنیا بھر میں بٹ کوائن اور دیگر ڈیجیٹل ایسٹس کی اڈاپشن تیزی سے بڑھ رہی ہے، اور اب حکومتیں اور مالیاتی ادارے بھی اس دوڑ میں شامل ہو رہے ہیں۔ امریکہ کی ریاستیں جیسے کینٹکی اور میری لینڈ نے اپنے مالیاتی نظام میں بٹ کوائن ریزرو شامل کرنے کی تجاویز پیش کی ہیں، تاکہ روایتی کرنسی پر انحصار کم کیا جا سکے اور اثاثوں کو مزید متنوع بنایا جا سکے۔ اسی دوران، PNC بینک جیسے بڑے مالیاتی ادارے اپنی بٹ کوائن ETF انویسٹمنٹ ظاہر کر رہے ہیں، جو اس بات کا اشارہ ہے کہ کرپٹو اب مین اسٹریم فائنانشل مارکیٹ میں اپنی جگہ بنا رہا ہے۔
تاہم، امریکی سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن (SEC) اب بھی محتاط ہے اور اس نے بلیک راک کے ایتھیریم ETF آپشنز کے فیصلے کو مزید تاخیر میں ڈال دیا ہے۔ اس فیصلے سے سرمایہ کاروں میں غیر یقینی صورتحال برقرار ہے، مگر دوسری جانب، AI ٹریڈنگ نے ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ جدید آرٹیفیشل انٹیلیجنس ایجنٹس اب ڈیجیٹل پراپرٹی رائٹس کی خودکار خرید و فروخت کر رہے ہیں اور کرپٹو انکم کما رہے ہیں، جو ڈیجیٹل اونرشپ کا ایک نیا دور متعارف کروا رہا ہے۔
بٹ کوائن کی قیمت میں مسلسل اتار چڑھاؤ کے باوجود ریٹیل انویسٹرز کا اعتماد بڑھتا جا رہا ہے، جو مارکیٹ میں بلش سینٹیمنٹ کی نشاندہی کر رہا ہے۔ دوسری جانب، ال سلواڈور نے IMF کے دباؤ کے باوجود بٹ کوائن کے ساتھ اپنی وابستگی برقرار رکھی ہے، جو اس بات کو مزید تقویت دیتا ہے کہ عالمی معیشت ڈیجیٹل ایسٹس کو قبول کرنے کی راہ پر گامزن ہے۔ یہ تمام پیش رفت اس بات کا اشارہ ہیں کہ کرپٹو اب قومی اور انسٹیٹیوشنل فائنانس کا ایک لازمی جزو بنتا جا رہا ہے۔
امریکہ کو بٹ کوائن ریزرو کی ضرورت ہے۔ VanEck کے سی ای او کی بڑی تجویز
VanEck کے سی ای او جین وین ایک نے امریکی حکومت کو ایک بڑی تجویز دی ہے: بٹ کوائن کو قومی ریزرو کا حصہ بنایا جائے تاکہ عالمی معیشت میں امریکہ کی بالادستی برقرار رہے۔ ان کے مطابق، بٹ کوائن کو گولڈ کی طرح استعمال کیا جا سکتا ہے، جو انفلیشن اور کرنسی ڈی ویلیوایشن سے بچاؤ کے لیے ایک مؤثر حل ثابت ہو سکتا ہے۔ جیسے جیسے دنیا بھر کی حکومتیں ڈیجیٹل ایسٹس میں دلچسپی لے رہی ہیں، ویسے ہی امریکہ کو بھی بلاک چین ٹیکنالوجی کو اپنی فائنانشل پالیسی کا حصہ بنانا ہوگا۔
یہ تجویز ایسے وقت میں آئی ہے جب ٹرمپ ایڈمنسٹریشن کرپٹو کے لیے ایک فرینڈلی ریگولیٹری ماحول بنانے کا عندیہ دے چکی ہے۔ اگر امریکہ واقعی بٹ کوائن ریزرو کے ماڈل کو اپناتا ہے، تو اس کا عالمی سطح پر بڑا اثر پڑے گا۔ دوسرے ممالک بھی اسی ماڈل کو فالو کرنے پر مجبور ہو جائیں گے، جس سے بٹ کوائن مزید مستحکم ہوگا اور ایک ریزرو ایسٹ کے طور پر اس کی لیجٹیمیسی میں اضافہ ہوگا۔
لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ بٹ کوائن کی پرائس بہت زیادہ وولیٹائل ہے، جو ایک قومی مالیاتی نظام کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے۔ گولڈ کے برعکس، بٹ کوائن کی قیمت میں روزانہ کی بنیاد پر بڑی تبدیلیاں آتی ہیں، جس سے قومی ریزرو کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ تاہم، اگر امریکہ نے یہ قدم اٹھایا، تو یہ دنیا میں ایک فائنانشل انوویشن لیڈر بننے کی طرف ایک بڑا اقدام ہوگا، اور بٹ کوائن کو ڈیجیٹل گولڈ کے طور پر مزید تسلیم کیا جائے گا۔
مارکیٹ پر اثرات:
اگر امریکی حکومت بٹ کوائن ریزرو بنانے پر غور کرتی ہے تو مارکیٹ میں بلش سینٹیمنٹ پیدا ہوگا۔ انسٹیٹیوشنل انویسٹرز کی دلچسپی بڑھے گی، جس سے ڈیمانڈ میں اضافہ ہوگا اور بٹ کوائن کی قیمت مزید اوپر جا سکتی ہے۔
بٹ کوائن لانگ ٹرم ہولڈنگ اسٹریٹجی میں اضافہ-مارکیٹ میں تیزی کی نوید
حالیہ ڈیٹا کے مطابق، وہ انویسٹرز جو بٹ کوائن کو چھ ماہ یا اس سے زیادہ عرصے تک اپنے والٹس میں رکھتے ہیں، بڑی مقدار میں بٹ کوائن اکٹھا کر رہے ہیں۔ رپورٹس کے مطابق، اس وقت تقریباً 75% بٹ کوائن ایسے والٹس میں موجود ہیں جو کئی مہینوں یا سالوں سے غیر فعال ہیں۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ رویہ ایک بڑے بُل رن کا اشارہ ہو سکتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب لانگ ٹرم ہولڈرز بٹ کوائن کو جمع کرتے ہیں، تو مارکیٹ میں سپلائی کم ہو جاتی ہے، اور جب ڈیمانڈ بڑھتی ہے تو قیمت میں زبردست اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے۔
اس رجحان کو مزید تقویت دینے والے عوامل میں شامل ہیں: ادارہ جاتی سرمایہ کاری (Institutional Adoption)، حکومتی ضابطے جو کرپٹو کے حق میں جا رہے ہیں، اور بٹ کوائن کو Inflation Hedge کے طور پر قبول کیے جانے کا بڑھتا ہوا رجحان۔ اس کے علاوہ، ٹرمپ ایڈمنسٹریشن کی بٹ کوائن-فرینڈلی پالیسیز نے بھی سرمایہ کاروں کے اعتماد میں اضافہ کیا ہے۔
تاہم، مارکیٹ میں اب بھی ریسک فیکٹرز موجود ہیں۔ ریگولیٹری سختیاں، عالمی مالیاتی بحران، یا کوئی بڑا جیو پولیٹیکل واقعہ اچانک مارکیٹ کو جھٹکا دے سکتا ہے، جس سے قیمتوں میں زیادہ اتار چڑھاؤ آ سکتا ہے۔ لہٰذا، انویسٹرز کو لانگ ٹرم ویژن کے ساتھ چلنا چاہیے اور کسی بھی غیر متوقع مارکیٹ موومنٹ کے لیے ذہنی طور پر تیار رہنا چاہیے۔
مارکیٹ پر اثرات:
اگر یہی لانگ ٹرم ہولڈنگ ٹرینڈ جاری رہا، تو مارکیٹ میں ایک سپلائی شاک آ سکتا ہے، جس کے نتیجے میں بٹ کوائن کی قیمت تیزی سے اوپر جا سکتی ہے۔ اگر ڈیمانڈ میں اضافہ ہوتا ہے تو بٹ کوائن کی ایک بڑی ریلی ممکن ہے، جو لانگ ٹرم انویسٹرز کے لیے زبردست موقع بن سکتی ہے۔
آرٹیفیشل انٹیلیجنس ایجنٹس اپنے اونرز کیلئے اب کرپٹو کما رہے ہیں!
ڈیجیٹل معیشت میں AI (آرٹیفیشل انٹیلیجنس) اور بلاک چین کے امتزاج نے ایک نیا سنگ میل عبور کر لیا ہے۔ اب AI ایجنٹس خود مختار طریقے سے انٹلیکچوئل پراپرٹی (IP) رائٹس کی خرید و فروخت کر رہے ہیں اور اپنے اونرز کے لیے کرپٹو انکم جنریٹ کر رہے ہیں۔ یہ AI ایجنٹس سمارٹ کانٹریکٹس کا استعمال کرتے ہوئے DeFi (ڈی سینٹرلائزڈ فائنانس) میں لین دین کر رہے ہیں، جس سے سیکیورٹی، شفافیت اور خودکار مالیاتی نظام کو تقویت مل رہی ہے۔
ایک حالیہ مثال Truth Terminal نامی AI کی ہے، جس نے سوشل میڈیا پر لوگوں کے ساتھ انٹریکشن کے ذریعے لاکھوں ڈالر کی کرپٹو فورچون اکٹھی کر لی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ AI کی مدد سے خودکار اقتصادی سرگرمیوں کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ یہ تبدیلی ڈیجیٹل پراپرٹی رائٹس، فنانشل ٹرانزیکشنز، اور قانونی پیچیدگیوں کے حوالے سے نئے سوالات کھڑے کر رہی ہے۔
لیکن یہ ترقی اپنے ساتھ اخلاقی اور قانونی چیلنجز بھی لے کر آ رہی ہے۔ کیا AI ایجنٹس کو بطور مالیاتی ادارہ تسلیم کیا جائے گا؟ اگر AI کوئی ایسا مالی فیصلہ کر لے جو انسانوں کے لیے نقصان دہ ہو، تو اس کی ذمہ داری کس پر آئے گی؟ حکومتوں اور ریگولیٹری باڈیز کو جلد از جلد اس ٹیکنالوجی کے لیے قانونی دائرہ کار طے کرنا ہوگا تاکہ اس کا مستقبل محفوظ اور شفاف بنایا جا سکے۔
مارکیٹ پر اثرات:
AI اور بلاک چین کا یہ امتزاج ایسے کرپٹو پروجیکٹس کے لیے بڑی طلب پیدا کر سکتا ہے جو سمارٹ کانٹریکٹس کو سپورٹ کرتے ہیں، جیسے ایتھیریم (Ethereum) اور سولانا (Solana)۔ تاہم، اگر ریگولیٹری ادارے اس ٹیکنالوجی کو کنٹرول کرنے میں سست روی دکھاتے ہیں، تو یہ مارکیٹ میں قلیل مدتی غیر یقینی صورتحال اور وولیٹیلٹی پیدا کر سکتی ہے۔
بٹ کوائن مارکیٹ میں ہولڈرز کا راج – ایکٹیوٹی کم ہونے لگی
تازہ ترین ڈیٹا کے مطابق، بٹ کوائن ایڈریس ایکٹیویٹی میں نمایاں کمی دیکھی جا رہی ہے کیونکہ زیادہ تر انویسٹرز اپنے بٹ کوائن کو ٹریڈ کرنے کے بجائے ہولڈ کر رہے ہیں۔ یہ رجحان تقریباً دو سالوں سے برقرار ہے، جو اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ مارکیٹ میں طویل المدتی اعتماد بڑھ رہا ہے۔ تاریخی طور پر، جب بڑی تعداد میں بٹ کوائن نیٹ ورک پر غیر فعال ہو جاتے ہیں، تو سپلائی میں کمی آتی ہے، جو آخر کار قیمت میں اضافے کا باعث بن سکتی ہے۔
یہ تبدیلی ایک بڑے رحجان کا حصہ ہے، جہاں بٹ کوائن کو اسٹور آف ویلیو یعنی ڈیجیٹل گولڈ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ انسٹیٹیوشنل انویسٹرز، ہائی نیٹ ورتھ انڈیویجویلز اور یہاں تک کہ کچھ حکومتی ادارے بھی بٹ کوائن ریزرو رکھنے پر غور کر رہے ہیں۔ اس سے کرپٹو مارکیٹ میں بٹ کوائن کی اہمیت مزید مستحکم ہو رہی ہے۔
تاہم، اس رجحان کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ مارکیٹ کی لیکوئیڈیٹی کم ہو رہی ہے۔ جب زیادہ تر ہولڈرز اپنے بٹ کوائن کو حرکت میں نہیں لاتے، تو ٹریڈنگ والیوم میں کمی آتی ہے، جو وولیٹیلٹی میں اضافے کا سبب بن سکتا ہے۔ اگر کسی موقع پر بڑی مقدار میں بٹ کوائن بیچا گیا، تو مارکیٹ میں اچانک بڑے اتار چڑھاؤ دیکھنے کو مل سکتے ہیں۔
مارکیٹ پر اثرات:
اگر یہی ہولڈنگ ٹرینڈ جاری رہا، تو سپلائی شاک کا امکان بڑھ جائے گا، جو قیمتوں میں اضافے کو جنم دے سکتا ہے۔ لیکن اگر اچانک مارکیٹ میں سیلنگ پریشر آ گیا، تو کم لیکوئیڈیٹی کے باعث وولیٹیلٹی میں شدید اضافہ ہو سکتا ہے، جس سے قیمت میں بڑے اتار چڑھاؤ دیکھنے کو مل سکتے ہیں۔
کینٹکی کا بڑا قدم – امریکی ریاست بٹ کوائن ریزرو بل متعارف کرانے ریاست بننے کو تیار
امریکہ کی ریاست کینٹکی نے ایک تاریخی اقدام اٹھاتے ہوئے بٹ کوائن ریزرو بل متعارف کرایا ہے، جس کا مقصد ریاستی مالیاتی اثاثوں میں بٹ کوائن کو شامل کرنا ہے۔ یہ بل ایسے وقت میں پیش کیا گیا ہے جب وفاقی حکومت کی سطح پر بھی بٹ کوائن کو ریزرو ایسٹ کے طور پر اپنانے پر بحث ہو رہی ہے۔ یہ پیشرفت ظاہر کرتی ہے کہ حکومتی ادارے کرپٹو کو محض ایک ٹریڈنگ ایسٹ کے بجائے ایک اسٹریٹجک معاشی اثاثہ سمجھنے لگے ہیں۔
یہ قدم بٹ کوائن کی مین اسٹریم فائنانس میں انٹیگریشن کے وسیع رجحان سے ہم آہنگ ہے۔ جیسے جیسے مہنگائی، حکومتی اخراجات، اور معاشی عدم استحکام کے خدشات بڑھ رہے ہیں، حکومتیں ایسے متبادل مالیاتی اثاثے تلاش کر رہی ہیں جو طویل مدتی ویلیو اسٹور کے طور پر کام کر سکیں۔ اگر کینٹکی بٹ کوائن ریزرو کو کامیابی سے نافذ کر لیتا ہے، تو یہ دیگر امریکی ریاستوں کے لیے ایک مثال بن سکتا ہے، اور ممکن ہے کہ مزید ریاستیں اس ماڈل کو اپنانے لگیں۔
تاہم، کچھ خدشات بھی موجود ہیں۔ بٹ کوائن کی وولیٹیلٹی حکومتی ریزرو کے لیے ایک بڑا چیلنج ہو سکتی ہے۔ اگر قیمتوں میں اچانک بڑی کمی یا اضافہ ہوا، تو یہ ریاستی مالیاتی استحکام پر اثر ڈال سکتا ہے۔ مزید یہ کہ، ریاستی سطح پر کرپٹو کے لیے ریگولیٹری فریم ورک ابھی تک واضح نہیں ہے، جس کے باعث قانونی پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔
مارکیٹ پر اثرات:
اگر کینٹکی نے واقعی بٹ کوائن ریزرو قائم کیا، تو یہ کرپٹو کو سرکاری مالیاتی پالیسیوں میں ایک اہم حیثیت دے سکتا ہے۔ اگر دیگر ریاستیں بھی اسی ماڈل کو اپناتی ہیں، تو اس سے ادارہ جاتی سرمایہ کاری (Institutional Demand) میں اضافہ ہوگا، جس کے نتیجے میں بٹ کوائن کی قیمت اور ساکھ مزید مستحکم ہو سکتی ہے۔
PNC بینک کی کرپٹو انٹری – 67 ملین ڈالر کی بٹ کوائن ETF انویسٹمنٹ کا انکشاف
PNC فنانشل سروسز گروپ، جو کہ امریکہ کا آٹھواں سب سے بڑا بینک ہے، نے 67 ملین ڈالر کی بٹ کوائن ETF ایکسپوژر کا انکشاف کیا ہے۔ یہ قدم نہ صرف کرپٹو کرنسی کی انسٹیٹیوشنل اڈاپشن میں ایک بڑا سنگ میل ہے، بلکہ اس بات کی بھی علامت ہے کہ روایتی بینکنگ سیکٹر اب کرپٹو انویسٹمنٹ کی جانب کھلنے لگا ہے۔
PNC نے براہِ راست بٹ کوائن رکھنے کے بجائے ETFs میں سرمایہ کاری کو ترجیح دی، جس سے ریگولیٹری پیچیدگیوں اور سیکیورٹی رسک کو کم کیا جا سکتا ہے۔ بٹ کوائن ETFs انویسٹرز کو بٹ کوائن کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ سے فائدہ اٹھانے کا موقع دیتے ہیں، بغیر اس کے کہ انہیں خود پرائیویٹ کیز یا سیلف کسٹڈی کا سامنا کرنا پڑے۔ PNC کا یہ اقدام بلیک راک اور فڈیلیٹی جیسے بڑے مالیاتی اداروں کے کرپٹو مصنوعات کی طرف جھکاؤ کے رجحان کا حصہ ہے۔
تاہم، کچھ چیلنجز اب بھی باقی ہیں۔ ریگولیٹری خدشات اور SEC کی جانب سے ETFs پر غیر یقینی صورتحال مستقبل میں انسٹیٹیوشنل اڈاپشن کو متاثر کر سکتی ہے۔ اس کے علاوہ، بٹ کوائن کی وولیٹیلٹی کی وجہ سے ETFs میں سرمایہ کاری کے باوجود مالیاتی خطرات موجود رہیں گے۔ لیکن، جیسے جیسے مزید انسٹیٹیوشنز کرپٹو انویسٹمنٹ کا اعلان کریں گے، ویسے ویسے مارکیٹ کی لیجٹیمیسی بڑھے گی، اور بٹ کوائن کی اڈاپشن میں مزید تیزی آ سکتی ہے۔
مارکیٹ پر اثرات:
PNC کی بٹ کوائن ETF انویسٹمنٹ دیگر بینکوں اور مالیاتی اداروں کے لیے مثالی قدم ثابت ہو سکتی ہے۔ اگر دوسرے بینک بھی کرپٹو ETFs میں سرمایہ کاری شروع کر دیتے ہیں، تو اس سے بٹ کوائن کی ڈیمانڈ میں اضافہ ہوگا، قیمتیں مزید بڑھ سکتی ہیں، اور انسٹیٹیوشنل انویسٹرز کا اعتماد مزید مضبوط ہو جائے گا۔
بٹ کوائن کی وولیٹیلٹی برقرار، لیکن ریٹیل انویسٹرز کا اعتماد مضبوط – کیا یہ ایک نیا بل رن ہے؟
بٹ کوائن کی قیمتوں میں شدید اتار چڑھاؤ کے باوجود ریٹیل انویسٹرز کی دلچسپی مسلسل بڑھ رہی ہے، جس سے مارکیٹ میں بلش سینٹیمنٹ کو تقویت مل رہی ہے۔ ریٹیل ٹریڈرز نے نہ صرف بٹ کوائن ETFs میں بلکہ کرپٹو اسٹاکس جیسے MicroStrategy میں بھی بڑی سرمایہ کاری کی ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عام سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھ رہا ہے۔
یہ رجحان کئی وجوہات کی بنا پر سامنے آ رہا ہے۔ سب سے پہلے، بٹ کوائن ETFs کی منظوری نے اس اثاثے کو مزید ایوریج انویسٹرز کے لیے قابلِ رسائی بنا دیا ہے۔ دوسرا، عالمی مالیاتی حالات، خاص طور پر مہنگائی اور روایتی مالیاتی نظام پر عدم اعتماد، نے بٹ کوائن کو ایک اسٹور آف ویلیو کے طور پر مزید مستحکم کیا ہے۔ تیسرا، امریکی صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی واپسی نے کرپٹو کے لیے ایک زیادہ فرینڈلی ریگولیٹری ماحول کی امید پیدا کر دی ہے، جس نے سرمایہ کاروں کے جوش و خروش میں اضافہ کیا ہے۔
تاہم، بٹ کوائن کی ہائی وولیٹیلٹی اب بھی ایک بڑا چیلنج بنی ہوئی ہے۔ مارکیٹ میں اچانک اتار چڑھاؤ کسی بھی وقت بڑے فوائد یا نقصانات کا سبب بن سکتا ہے۔ ماہرین تجویز کرتے ہیں کہ ریٹیل انویسٹرز کو محتاط رہنا چاہیے، اپنی پورٹ فولیوز میں کرپٹو کی ایک محدود مقدار رکھنی چاہیے، اور لانگ ٹرم انویسٹمنٹ اسٹریٹجی اپنانے پر زور دینا چاہیے تاکہ غیر متوقع مارکیٹ موومنٹس کے خطرے سے بچا جا سکے۔
مارکیٹ پر اثرات:
ریٹیل سرمایہ کاروں کی بڑھتی ہوئی شرکت بٹ کوائن کی قیمت کو قلیل مدتی میں مزید اوپر دھکیل سکتی ہے۔ لیکن، چونکہ وولیٹیلٹی ایک بڑا فیکٹر بنی ہوئی ہے، اچانک مارکیٹ کریکشنز کی صورت میں تیز ترین اوپر نیچے ہونے والے جھٹکوں کے لیے بھی تیار رہنا ہوگا۔
میری لینڈ کی بڑی پیش رفت – امریکی ریاست نے بٹ کوائن ریزرو ایکٹ متعارف کر دیا
میری لینڈ نے ایک تاریخی قدم اٹھاتے ہوئے بٹ کوائن ریزرو ایکٹ پیش کر دیا ہے، جس کا مقصد ریاستی مالیاتی اثاثوں میں بٹ کوائن کو شامل کرنا اور معاشی استحکام کو یقینی بنانا ہے۔ یہ بل کینٹکی سمیت ان امریکی ریاستوں کے نقشِ قدم پر ہے جو کرپٹو کرنسی کو بطور سرکاری اثاثہ قبول کرنے پر غور کر رہی ہیں۔ اگر یہ بل پاس ہو جاتا ہے، تو میری لینڈ امریکہ کی پہلی ریاستوں میں شامل ہو جائے گی جو بٹ کوائن کو اپنی مالیاتی حکمت عملی میں سرکاری سطح پر شامل کرے گی۔
یہ تجویز بٹ کوائن کی بڑھتی ہوئی قانونی حیثیت کو ظاہر کرتی ہے، کیونکہ اب پالیسی ساز بھی اسے ایک مضبوط مالیاتی آلہ کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ معاشی غیر یقینی صورتحال، افراطِ زر (Inflation)، اور فیاٹ کرنسی کی گرتی ہوئی قدر جیسے مسائل کے پیش نظر، امریکی ریاستیں روایتی مالیاتی نظام سے ہٹ کر ڈیجیٹل ایسٹس کی طرف متوجہ ہو رہی ہیں۔ بٹ کوائن، جسے “ڈیجیٹل گولڈ” کہا جاتا ہے، ایک ایسے متبادل کے طور پر سامنے آیا ہے جو طویل مدتی ویلیو اسٹور فراہم کر سکتا ہے۔
تاہم، چیلنجز بھی کم نہیں۔ بٹ کوائن کی وولیٹیلٹی ایک بڑی تشویش ہے، کیونکہ اگر ریاستی ریزرو میں شامل ہونے کے بعد اس کی قیمت میں بڑی کمی واقع ہوئی تو مالیاتی خسارہ ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، وفاقی حکومت کے لیے ایک اہم سوال یہ بھی ہوگا کہ ریاستی سطح پر کرپٹو اثاثوں کو ریگولیٹ کیسے کیا جائے۔ اگر اس معاملے میں قانونی پیچیدگیاں بڑھتی ہیں تو یہ ریاستوں کے فیصلے پر اثر ڈال سکتی ہیں۔
مارکیٹ پر اثرات:
اگر میری لینڈ کا بٹ کوائن ریزرو ایکٹ کامیاب ہو جاتا ہے، تو یہ دیگر امریکی ریاستوں کے لیے نئی راہ ہموار کر سکتا ہے۔ اس سے نہ صرف بٹ کوائن کی قانونی حیثیت کو مزید تقویت ملے گی، بلکہ انسٹیٹیوشنل لیول پر اڈاپشن میں بھی تیزی آ سکتی ہے، جو مارکیٹ میں ایک نئی ریلی کو جنم دے سکتا ہے۔
ال سلواڈور کی بٹ کوائن سے وابستگی برقرار – IMF کے دباؤ کے باوجود پالیسی میں نرمی
ال سلواڈور، جو بٹ کوائن کو لیگل ٹینڈر بنانے والا پہلا ملک ہے، نے IMF کے دباؤ کے باوجود کرپٹو سے اپنی وابستگی برقرار رکھی ہے۔ حالانکہ حکومت نے بٹ کوائن سے متعلق کچھ پالیسی ایڈجسٹمنٹ کیے ہیں، لیکن یہ اب بھی کرپٹو انویسٹمنٹ کو فروغ دینے کے لیے پرعزم ہے۔ اب بزنسز پر بٹ کوائن کو لازمی قبول کرنے کی شرط نہیں رہی، اور ٹیکس پیمنٹ کے لیے بھی اس کا استعمال ضروری نہیں، لیکن حکومت بٹ کوائن اکٹھا کرنے اور کرپٹو انیشیٹوز کو سپورٹ کرنے میں مصروف ہے۔
صدر نایب بوکیلے کے دور میں ال سلواڈور نے خود کو بٹ کوائن اڈاپشن کے عالمی مرکز کے طور پر پیش کیا ہے، لیکن اس مہم کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔ عوام میں بٹ کوائن کا استعمال کم رہا ہے، اور عالمی سطح پر بھی بہت سے مالیاتی ماہرین اور ادارے اس تجربے پر شکوک و شبہات رکھتے ہیں۔ IMF اور دیگر مالیاتی اداروں نے بٹ کوائن کو لیگل ٹینڈر بنانے پر تنقید کی، اور اس کے نتیجے میں ال سلواڈور کو کچھ مالیاتی معاہدے بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
لازمی اڈاپشن سے رضاکارانہ اپنانے تک کا یہ سفر ایک اسٹریٹیجک کمپرومائز ہے۔ اس سے ریگولیٹری دباؤ میں کمی تو آئی ہے، لیکن یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ بٹ کوائن کی مکمل مین اسٹریم اڈاپشن اتنی آسان نہیں جتنی پہلے سمجھی جا رہی تھی۔ البتہ، ال سلواڈور کی حکومت اب بھی بٹ کوائن خریدنے اور کرپٹو انویسٹمنٹ کو فروغ دینے کے لیے پرعزم ہے، جو ظاہر کرتا ہے کہ یہ کرپٹو انٹیگریشن کو ایک لانگ ٹرم پالیسی کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
مارکیٹ پر اثرات:
ال سلواڈور کی کرپٹو پالیسیز عالمی سطح پر ایک علامتی اہمیت رکھتی ہیں۔ اگر یہ ملک کامیابی سے بٹ کوائن کو اپنی معیشت میں ضم کر لیتا ہے، تو یہ دوسرے ممالک کے لیے ایک ماڈل بن سکتا ہے۔ اس سے بٹ کوائن کی عالمی طلب میں اضافہ ہو سکتا ہے، اور اس کی حیثیت بطور قومی اثاثہ مزید مستحکم ہو سکتی ہے۔
بلیک راک کے ایتھیریم ETF پر SEC کا فیصلہ مؤخر
امریکی سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن (SEC) نے بلیک راک کے ایتھیریم ETF آپشنز ٹریڈنگ کے فیصلے کو مزید تاخیر میں ڈال دیا ہے۔ یہ اقدام ظاہر کرتا ہے کہ SEC ابھی بھی کرپٹو فنانشل پروڈکٹس پر محتاط رویہ اختیار کیے ہوئے ہے اور اسے مارکیٹ اسٹیبلٹی، ممکنہ منیپولیشن، اور ریگولیٹری خدشات پر تحفظات ہیں۔
اگر بلیک راک کا ایتھیریم ETF منظور ہو جاتا ہے، تو یہ ادارہ جاتی سرمایہ کاروں کو ایتھیریم میں سرمایہ کاری کا موقع فراہم کرے گا، بغیر اس کے کہ انہیں اسے براہ راست خریدنا پڑے۔ یہ بٹ کوائن ETFs کی کامیابی کے بعد ایک اور بڑا قدم ہوگا، جو ایتھیریم کو مزید مین اسٹریم فائنانس کا حصہ بنا سکتا ہے۔ لیکن SEC کی تاخیر ظاہر کرتی ہے کہ اب بھی بہت سے قانونی اور ریگولیٹری چیلنجز باقی ہیں، خاص طور پر ایتھیریم کو بطور کموڈٹی یا سیکیورٹی کے طور پر کلاسیفائی کرنے کے حوالے سے۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ SEC ایک محتاط حکمت عملی اپنا رہا ہے، خاص طور پر جب کہ حالیہ دنوں میں کرپٹو سے متعلق مالیاتی مصنوعات پر سخت جانچ پڑتال کی جا رہی ہے۔ اگرچہ فوری منظوری کا امکان کم نظر آتا ہے، لیکن ایتھیریم پر بڑھتی ہوئی انسٹیٹیوشنل ڈیمانڈ اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ لانگ ٹرم میں اس کے اپروول کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔
مارکیٹ پر اثرات:
SEC کے فیصلے میں تاخیر کے باعث ایتھیریم کی قیمت میں قلیل مدتی غیر یقینی صورتحال دیکھی جا سکتی ہے۔ تاہم، اگر بالآخر یہ ETF اپروو ہو جاتا ہے، تو اس سے ایتھیریم میں انسٹیٹیوشنل انویسٹمنٹ میں نمایاں اضافہ ہو سکتا ہے، جو اس کی قیمت کو مزید اوپر لے جا سکتا ہے اور مارکیٹ میں اس کی پوزیشن کو مزید مستحکم کر سکتا ہے۔
اہم نکات
✅ بٹ کوائن ریزرو کا رجحان بڑھ رہا ہے: کینٹکی اور میری لینڈ نے اسٹیٹ بٹ کوائن ریزرو کے قیام کی تجاویز پیش کی ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومتیں اب ڈیجیٹل ایسٹس کو اپنی فائنانشل اسٹریٹیجی میں شامل کر رہی ہیں۔
✅ انسٹیٹیوشنل کرپٹو اڈاپشن میں تیزی: PNC بینک نے 67 ملین ڈالر کے بٹ کوائن ETFs میں ایکسپوژر ظاہر کیا، جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ روایتی مالیاتی ادارے اب کرپٹو انویسٹمنٹ کو قبول کر رہے ہیں۔
✅ وولیٹیلٹی کے باوجود ریٹیل انویسٹرز پرجوش: انفرادی سرمایہ کار بٹ کوائن اور اس سے متعلقہ اثاثے زیادہ مقدار میں خرید رہے ہیں، جس سے مارکیٹ میں بلش سینٹیمنٹ بڑھ رہا ہے۔
✅ AI ٹریڈنگ نے کرپٹو مارکیٹ کو بدل کر رکھ دیا: AI ایجنٹس اب انٹلیکچوئل پراپرٹی رائٹس کی خودکار خرید و فروخت کر رہے ہیں اور کرپٹو انکم جنریٹ کر رہے ہیں، جس سے بلاک چین ایپلیکیشنز کے لیے نئے مواقع پیدا ہو رہے ہیں۔
✅ لانگ ٹرم بٹ کوائن ہولڈرز کی تعداد میں اضافہ: زیادہ سے زیادہ سرمایہ کار بٹ کوائن کو طویل مدت کے لیے پکڑ رہے ہیں، جس سے سپلائی میں کمی ہو رہی ہے اور مستقبل میں بٹ کوائن کی قیمت میں ممکنہ اضافہ ہو سکتا ہے۔
✅ SEC نے بلیک راک کے ایتھیریم ETF آپشنز پر فیصلہ مؤخر کر دیا: ریگولیٹری ادارہ اب بھی ایتھیریم ETFs کی منظوری کے حوالے سے محتاط ہے، جس سے مارکیٹ میں غیر یقینی صورتحال پیدا ہو رہی ہے۔
✅ ال سلواڈور کی بٹ کوائن کے ساتھ وابستگی برقرار: IMF کے دباؤ کے باوجود حکومت نے بٹ کوائن انویسٹمنٹ اور متعلقہ پراجیکٹس کو سپورٹ کرنا جاری رکھا ہے، جو عالمی کرپٹو اڈاپشن کے لیے ایک مضبوط اشارہ ہے۔
✅ بٹ کوائن ایڈریس ایکٹیویٹی میں نمایاں کمی: زیادہ سرمایہ کار لانگ ٹرم ہولڈنگ کو ترجیح دے رہے ہیں، جس سے مارکیٹ کی لیکوئیڈیٹی کم ہو رہی ہے اور ممکنہ وولیٹیلٹی بڑھ سکتی ہے۔
✅ ریگولیٹری غیر یقینی صورتحال برقرار: حکومتیں اور مالیاتی ادارے کرپٹو قوانین کو اپنانے کے لیے کام کر رہے ہیں، لیکن SEC اور دیگر پالیسی ساز اداروں کی غیر واضح پوزیشن مارکیٹ کو متاثر کر رہی ہے۔
✅ انسٹیٹیوشنل اور حکومتی اڈاپشن میں تیزی: مارکیٹ میں اتار چڑھاؤ کے باوجود، بڑے مالیاتی اور حکومتی ادارے کرپٹو کو روایتی فائنانس میں ضم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جو لانگ ٹرم گروتھ کو سپورٹ کرے گا۔









