ایشیا کے علاقائی کلیسا کے رہنماؤں نے حال ہی میں ایک اجلاس میں شرکت کی جہاں انہوں نے مذہبی خدمت، تعلیم اور مواد میں مصنوعی ذہانت (AI) کے استعمال کے لیے اخلاقی ہدایات مرتب کرنے پر تبادلہ خیال کیا۔ ہانگ کانگ کے کارڈینل نے اس موقع پر مصنوعی ذہانت کو خدا کی طرف سے دیا گیا ایک اہم تحفہ قرار دیا، جس سے مذہبی تنظیموں کو اپنی خدمات میں جدت لانے اور مؤثر بنانے کی نئی راہیں مل سکتی ہیں۔
مصنوعی ذہانت ٹیکنالوجی کی ایک تیزی سے ترقی کرتی ہوئی شاخ ہے جو خودکار نظاموں، مشین لرننگ، اور ڈیٹا پروسیسنگ کے ذریعے مختلف شعبوں میں انقلاب برپا کر رہی ہے۔ دنیا بھر میں تعلیمی ادارے، کاروباری ادارے اور حتیٰ کہ مذہبی ادارے بھی اس ٹیکنالوجی کو اپنانے میں دلچسپی لے رہے ہیں تاکہ اپنی کارکردگی کو بہتر بنایا جا سکے اور نئے دور کے چیلنجز کا مقابلہ کیا جا سکے۔
ایشیا کے بپشپ نے اس بات پر زور دیا کہ مصنوعی ذہانت کے استعمال میں اخلاقی حدود کا تعین ضروری ہے تاکہ اس کے ممکنہ منفی اثرات سے بچا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے اصول وضع کیے جائیں جو انسانی وقار، رازداری، اور مذہبی اقدار کا احترام کریں۔ اس کے علاوہ، تعلیم میں AI کے استعمال سے طلباء کو جدید معلومات تک آسان رسائی میسر آ سکتی ہے، مگر اس کے لیے شفاف اور ذمہ دارانہ طریقہ کار اپنانا لازمی ہے۔
اس اجلاس کا مقصد یہ بھی تھا کہ کلیسا کی تنظیمیں ایک مشترکہ فریم ورک تیار کریں جو AI کے فوائد کو بروئے کار لاتے ہوئے معاشرتی اور مذہبی اصولوں کی پاسداری کو یقینی بنائے۔ اس اقدام سے نہ صرف مذہبی خدمات کی فراہمی میں بہتری آئے گی بلکہ یہ نئی ٹیکنالوجی کے حوالے سے عوامی تحفظات کو بھی کم کرنے میں مددگار ثابت ہوگا۔
مستقبل میں، مصنوعی ذہانت کے بڑھتے ہوئے استعمال کے ساتھ، مذہبی اور تعلیمی اداروں کو چاہیے کہ وہ اس ٹیکنالوجی کی اخلاقی حدود اور سماجی اثرات پر مسلسل غور کرتے رہیں تاکہ ایک متوازن اور ذمہ دارانہ اپروچ اختیار کی جا سکے۔
یہ خبر تفصیل سے یہاں پڑھی جا سکتی ہے: decrypt