امریکی ڈالر کی طلب پر اسٹیبل کوائنز کے اثرات پر مباحثہ

زبان کا انتخاب

امریکہ میں پہلی اسٹیبل کوائن قانون سازی، جسے GENIUS ایکٹ کہا جاتا ہے، کے نفاذ کے بعد مالیاتی حلقوں میں اسٹیبل کوائنز کے امریکی ڈالر کی طلب بڑھانے اور مختصر مدتی امریکی خزانہ بانڈز کی خریداری میں اضافے کے حوالے سے مختلف آراء سامنے آئی ہیں۔ وال اسٹریٹ کی بڑی سرمایہ کاری فرموں جیسے جے پی مورگن، ڈوئچے بینک، اور گولڈمین ساکس کے ماہرین کا خیال ہے کہ اسٹیبل کوائنز کو ابھی مارکیٹ کا مکمل تبدیلی لانے والا عنصر قرار دینا قبل از وقت ہوگا۔
امریکی خزانہ سیکرٹری کی رپورٹ کے مطابق اسٹیبل کوائن مارکیٹ موجودہ تین سو ارب ڈالر سے بڑھ کر اگلے دہائی کے آخر تک تین ٹریلین ڈالر تک پہنچ سکتی ہے، جس سے مختصر مدتی امریکی خزانہ بانڈز کی مانگ میں اضافہ متوقع ہے۔ تاہم، کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ اسٹیبل کوائنز کی پشت پناہی کرنے والے فنڈز بنیادی طور پر پہلے سے موجود سرمایہ کاری کے ذرائع سے آتے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ اسٹیبل کوائنز نئی طلب کی تخلیق کے بجائے موجودہ خزانہ بانڈز کے ہولڈرز میں منتقلی کا باعث بن سکتے ہیں۔
اسٹیبل کوائنز ایسی کرپٹوکرنسیز ہیں جو اپنی قیمت کو کسی مستحکم اثاثہ، جیسے امریکی ڈالر، سے منسلک رکھتی ہیں تاکہ قیمت میں استحکام برقرار رہے۔ ان کا مقصد کرپٹو مارکیٹ میں قیمتوں کی اتار چڑھاؤ سے بچاؤ اور ڈیجیٹل لین دین کو آسان بنانا ہے۔ GENIUS ایکٹ کی منظوری کے بعد اس سیکٹر کو قانونی تحفظ ملا ہے، جو اس کی ترقی اور صارفین میں اعتماد بڑھانے کا باعث بن سکتا ہے۔
اگرچہ اسٹیبل کوائنز کے بڑھتے ہوئے استعمال سے مالیاتی نظام میں شفافیت اور تیزی آنے کے امکانات ہیں، مگر ماہرین محتاط ہیں کہ مالیاتی خطرات، ریگولیٹری چیلنجز، اور مارکیٹ کی غیر یقینی صورتحال کے پیش نظر اس کے اثرات کا تعین ابھی مکمل طور پر ممکن نہیں۔ آئندہ برسوں میں اسٹیبل کوائنز کی مارکیٹ میں وسعت اور امریکی خزانہ بانڈز کی طلب پر ان کے اثرات کو قریب سے مانیٹر کیا جائے گا تاکہ مالیاتی پالیسی سازوں اور سرمایہ کاروں کو بہتر فیصلہ سازی میں مدد مل سکے۔

یہ خبر تفصیل سے یہاں پڑھی جا سکتی ہے: binance

بروقت خبروں کے لیے ہمارے سوشل چینل جوائن کیجیے

تازہ خبریں و تحاریر

تلاش