مورگن اسٹینلے کے مطابق بٹ کوائن، جس کی مارکیٹ کیپٹلائزیشن 1.07 ٹریلین ڈالر ہے، اب اتنا بڑا ہو چکا ہے کہ اسے امریکہ کے لیے ریزرو اثاثہ کے طور پر رکھا جا سکتا ہے۔ یہ پیش رفت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ بٹ کوائن کا سرکاری سطح پر تسلیم ہونا اب خواب نہیں رہا۔ تاہم، قیمتوں میں غیر یقینی اتار چڑھاؤ اس کے ریزرو اثاثہ کے طور پر استعمال کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مارچ میں ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے وفاقی ادارے کو بٹ کوائن رکھنے کی ہدایت دی، جسے سونے کے ذخائر جیسے محفوظ کیا جائے گا۔ اگر امریکہ بٹ کوائن کی کل فراہمی کا 12 سے 17 فیصد اپنے پاس رکھے تو یہ عالمی مالیاتی ذخائر میں دیگر کرنسیوں کے برابر ہو جائے گا، جس کے لیے تقریباً 370 ارب ڈالر کی بٹ کوائن کی ضرورت ہوگی۔ دوسری جانب، برطانیہ اور سوئٹزرلینڈ نے بٹ کوائن کو ریزرو میں رکھنے کی تجاویز کو مسترد کیا ہے۔ برطانیہ کرپٹو کرنسی کی نگرانی اور بلاک چین کی مالیاتی استعمال پر تو غور کر رہا ہے، مگر اسے ریزرو میں شامل کرنے سے انکار کر چکا ہے۔ سوئس نیشنل بینک کے مطابق بٹ کوائن کی قیمت میں غیر متوقع اتار چڑھاؤ اور لیکویڈیٹی کے مسائل اسے ریزرو اثاثہ کے لیے غیر مناسب بناتے ہیں۔ مالی ماہرین کا کہنا ہے کہ بٹ کوائن کی قیمت کی عدم استحکام اب بھی اس کے ریزرو کے طور پر استعمال میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، لیکن اگر یہ اتار چڑھاؤ قابو میں آ جائے تو کرپٹو کرنسی کو مالیاتی دنیا میں مزید اہم مقام مل سکتا ہے۔