جاپان میں کرپٹو کرنسی کے سرمایہ کاروں کے لیے ٹیکس کے نظام کی پیچیدگی ایک بڑی تشویش کا باعث بن گئی ہے۔ ایک قومی سروے کے مطابق، جاپان میں سابق کرپٹو کرنسی ہولڈرز میں سے 22.2 فیصد نے ٹیکس کے پیچیدہ قواعد کو مارکیٹ چھوڑنے کی بنیادی وجہ قرار دیا ہے، جبکہ 19.4 فیصد نے قیمتوں کی غیر یقینی تبدیلی کو اس کا سبب بتایا ہے۔ موجودہ سرمایہ کاروں میں بھی 61.4 فیصد نے قیمتوں کی غیر مستحکم صورتحال اور 60 فیصد نے ٹیکس کے پیچیدہ نظام کو اہم چیلنجز میں شمار کیا ہے۔
جاپان میں کرپٹو کرنسی سے حاصل ہونے والی آمدنی کو ‘متفرق آمدنی’ کے زمرے میں شامل کیا جاتا ہے، جس پر مقامی ٹیکسز کے بعد 55 فیصد تک کا ٹیکس لاگو ہوتا ہے۔ سرمایہ کاروں کو ہر لین دین کا حساب رکھنا، نقصانات اور منافع کو ین میں تبدیل کرنا اور سالانہ رپورٹ جمع کرانا ضروری ہوتا ہے۔ یہ انتظامی بوجھ اکثر سرمایہ کاری سے حاصل ہونے والے منافع سے زیادہ محسوس ہوتا ہے، حالانکہ 62.7 فیصد سرمایہ کار طویل مدتی دولت میں اضافہ کو اپنا مقصد بناتے ہیں جبکہ صرف 15.1 فیصد سرمایہ کار قلیل مدتی منافع کی تلاش میں ہوتے ہیں۔
مزید برآں، جاپان کی فنانشل سروسز ایجنسی نے 105 کرپٹو کرنسیز کو مالیاتی مصنوعات کے طور پر دوبارہ درجہ بندی کرنے اور کرپٹو کرنسی آمدنی پر زیادہ سے زیادہ ٹیکس کی شرح کو 55 فیصد سے کم کر کے 20 فیصد تک لانے کی تجویز دی ہے۔ اس اقدام کا مقصد اسٹاک مارکیٹ کے ٹیکس نظام کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنا ہے۔ یہ اصلاحی تجاویز 2026 میں قانون سازی کے لیے پیش کی جائیں گی۔
کرپٹو کرنسی کے عالمی مارکیٹ میں بڑھتے ہوئے رجحانات کے پیش نظر، جاپان میں اس طرح کی اصلاحات سرمایہ کاروں کے لیے آسانیاں پیدا کر سکتی ہیں اور مارکیٹ میں اعتماد بحال کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔ تاہم، سرمایہ کاروں کو اب بھی قیمتوں کی غیر یقینی صورتحال اور ٹیکس کے نظام کی پیچیدگیوں کا سامنا رہنے کا امکان ہے۔
یہ خبر تفصیل سے یہاں پڑھی جا سکتی ہے: binance